Sunday 21 June 2015

درختِ زرد

جون ایلیا نے ایک بار کہیں اپنے اکلوتے بیٹے زریون کو دیکھا جو اب ایک نوعمر لڑکا تھا۔ جون اس کو بالکل ہی نہیں پہچان سکے۔ اور بیٹے نے ان کو پہچان لینے کے باوجود ان کی جانب کسی خصوصی التفات کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جون حددرجہ دل شکستہ وملول ہوئے،
اور اسی رات انہوں نے آنسوئوں میں ڈوب کر اپنی معرکتہ الآرانظم ’’درختِ زرد‘‘ لکھی ۔ جون نے یہ نظم لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی اور کسی کو نہیں سنائی تھی۔ پھر انہوں نے فون کرکے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ وہ مجھے ایک نظم سنانا چاہتے ہیں۔ کوٹھی کے پچھواڑے اس اجاڑ اور ٹوٹے پھوٹے کمرے میں، جہاں بہت سارے کاٹھ کباڑ کے ساتھ جون کا پلنگ بھی پڑا ہوا تھا، جون نے مجھے پہلے تو اس نظم کا پس منظر سنایا اور پھر یہ نظم سنانی شروع کی۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دھاروں دھارروتے جاتے تھے اور نظم پڑھتے جاتے تھے۔ اس طویل نظم میں جتنے مصرعے تھے، ان سے کہیں زیادہ آنسو جون نے اس نظم کو سنانے میں بہائے ہوں گے۔
جون کی صحت اس زمانے میں بہت خراب ہوگئی تھی۔ وہ باتیں کرتے کرتے ہانپنے لگتے تھے اور ذراسی دور چلنے سے ان کا سانس پھولنے لگتا تھا۔ کثرت شراب نوشی ان کی پہلے سے خراب صحت کو بری طرح تباہ کیے ڈال رہی تھی۔ وہ دن بھر اپنے کمرے میں ہی اکیلے رہتے ، شام کو کوئی بھولا بھٹکا دوست آجاتا اور ان کے ساتھ مے نوشی میں شامل ہوجاتا۔ رات کو وہ اس ڈھنڈار اور اجاڑ کمرے میں تنہا ہوتے اور آدھی آدھی رات تک جاگ کر غزلیں لکھتے رہتے۔ وہ شدید اعصابی کمزوری کا شکار ہوتے جارہے تھے۔
ایک دن اخبار میں میں نے خبر پڑھی کہ گزشتہ شب جون کا اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ جون کی ہزارہا خاردار پیچ وخم سے گزرتی ہوئی داستان حیات بالآخر اپنے انجام کو پہنچی۔ جون زندگی بھر اپنے آپ سے لڑتے رہے اور اپنے آپ کو مٹاتے رہے۔ شاید وہ یہ فیصلہ کبھی نہ کرسکے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اور اسی گومگو کی حالت میں وہ دنیا سے سدھار گئے۔
میں انہیں چشم تصور سے اپنی نہایت منفرد اور کمال نظم د رخت زرد میں اپنے بیٹے زریون سے مکالمہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔

درختِ زرد

نہیں معلوم زریوں اب تمہاری عمر کیا ہوگی
وہ کن خوابوں سے جانے آشنا، نہ آشنا ہوگی
تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے
تمہیں کیسے گماں ہوں گے، تمہیں کیسے گلے ہوں گے
تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو
تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو
نہ جانے کون دوشیزہ تمہاری زندگی ہوگی
نہ جانے اس کی کیا بایستگی شایستگی ہوگی
اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہے ہو گے
نہ جانے تم نے کتنی کم غلط اُردو لکھی ہوگی
یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے
یہ صنفِ نثر ہم نابالغوں کے فن کا حصہ ہے
وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میں
گڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اس کے گالوں میں
گماں یہ ہے، تمہاری بے رسائی نہ رسائی ہو
وہ آتی ہو تمہارے پاس لیکن آ نہ پائی ہو
وہ دوشیزہ بھی شاید داستانوں کی ہو دل دادہ
اسے معلوم ہوگا زال تھا سہراب کا دادا
تہمتن یعنی رستم تھا گرامی سام کا وارث
گرامی سام تھا صُلبِ نریمانی کا خوش زادہ
(یہ میری ایک خواہش ہے جو مشکل ہے)
وہ نجمِ آفندیِ مرحوم کو تو جانتی ہوگی
وہ نوحوں کے ادب کا طرز تو پہچانتی ہوگی
اسے کد ہوگی شاید اُن سبھی سے جو لپاڑی ہوں
نہ ہوں گے خواب اس کا جو گویے اور کھلاڑی ہوں

ہَدَف ہوں گے تمہارا کون، تم کس کے ہدف ہو گے
نہ جانے وقت کی پیکار میں تم کس طرف ہو گے
ہے رَن یہ زندگی، اِک رَن جو برپا لمحہ لمحہ ہے
ہمیں اس رَن میں، جو بھی ہو، کسی جانب تو ہونا ہے
سو، ہم بھی اس نفس تک ہیں سپاہی ایک لشکر کے
ہزاروں سال سے جیتے چلے آئے ہیں مَر مَر کے
شہود ایک فن ہے اور میری عداوت بے فنوں سے ہے
میری پیکار ازل سے سب تناسب دشمنوں سے ہے
بہار آقائے بابل ہے دو آبہ بیچتا کیا ہے
یہ خسرو، میر، غالب کا خرابہ بیچتا کیا ہے
ہمارا غالبِ اعظم تھا چور آقائے بیدلؔ کا
سو رزقِ فخر اب ہم کھا رہے ہیں میرِ بسمل کا
سِدھارت بھی تھا شرمندہ کہ دو آبے کا باسی تھا
قسم احساس کی وہ تو گیا سے التماسی تھا
تمہیں معلوم ہے اُردو جو ہے پالی سے نکلی ہے
وہ گویا اس کی ہی اک پُرنمو ڈالی سے نکلی ہے

یہ کڑواہٹ کی باتیں ہیں، مٹھاس ان کی نہ پوچھو تم
نمِ لب کو ترستی ہیں، سو، پیاس ان کی نہ پوچھو تم
یہ اِک دو جُرعوں کی اک چُہل ہے اور چُہل میں کیا ہے
عوام النّاس سے پوچھو، بھلا الکحل میں کیا ہے
یہ طعن و طنز کی ہرزہ سرائی ہو نہیں سکتی
کہ میری جان میرے دل سے رشتہ کھو نہیں سکتی

ردیف و قافیہ کیا ہیں، شکستِ نارَوا کیا ہے
’’شکستِ ناروا‘‘ نے مجھ کو پارہ پارہ کر ڈالا
اَنا کو میری بے اندازہ تر بے چارہ کر ڈالا
میں اپنے آپ میں ہارا ہوں اور خوارانہ ہارا ہوں
جگر چاکانہ ہارا ہوں، دل افگارانہ ہارا ہوں
جسے فن کہتے آئے ہیں وہ ہے خُونِ جگر اپنا
مگر خونِ جگر کیا ہے، وہ ہے قتال تر اپنا
کوئی خونِ جگر کا فن ذرا تعبیر میں لائے
مگر میں تو کہوں، وہ پہلے میرے سامنے آئے
وجود و شعر دونوں ڈیفائن ہو نہیں سکتے
کبھی مفہوم میں ہرگز یہ کائن ہون ہیں سکتے
حسابِ حرف میں آتا رہا ہے بس حَسَب ان کا
میاں اک حال ہے، اک حال جو بے حالِ حالت ہے
نہ جانے جبر ہے حالت کہ حالت جبر ہے، یعنی
کسی بھی بات کے معنی جو ہیں اُن کے ہیں کیا معنی
وجود اک جبر ہے میرا، عدم اوقات ہے میری
جو میری ذات ہرگز بھی نہیں، وہ ذات ہے میری
میں روز و شبِ نگارش کوش خود اپنے عدم کا ہوں
میں اپنا آدمی ہرگز نہیں، لوح و قلم کا ہوں

نہیں معلوم زریون، اب تمہاری عمر کیا ہوگی
یہی ہے دل کا مضمون، اب تمھاری عمر کیا ہوگی
ہمارے درمیاں اب ایک بے جا تر زمانہ ہے
لبِ تشنہ پہ اک زہرِ حقیقت کا فسانہ ہے
عجب فرصت میسر آئی ہے ’’دل جان رشتے‘‘ کو
نہ دل کو آزمانا ہے، نہ جان کو آزمانا ہے
کلیدِ کِشت زارِ خواب بھی گم ہو گئی آخر
کہاں اب جادۂ خرّم میں سرسبزانہ ہے
کہوں تو کیا کہوں میرا یہ زخمِ جاودانہ ہے
وہی دل کی حقیقت جو کبھی جاں تھی، وہ اب آخر
فسانہ در فسانہ در فسانہ در فسانہ ہے
ہمارا باہمی رشتہ جو حاصل تر تھا رشتوں کا
ہمارا طَورِ بے زاری بھی کتنا والہانہ ہے
کسی کا نام لکھا ہے مری ساری بیاضوں پر
میں ہمت کر رہا ہوں، یعنی اب اس کو مٹانا ہے
ہنسی آتی ہے اب وہ کس قدر نا واجبانہ ہے
یہ اِک شامِ عذابِ بے سروکارانہ حالت ہے
ہوئے جانے کی حالت میں ہوں ، بس فرصت ہی فرصت ہے
تہمیں معلوم تم اس وقت کس معلوم میں ہو گے
نہ جانے کون سے معنی میں، کس مفہوم میں ہو گے
میں تھا مفہوم، نامفہوم میں گم ہو چکا ہوں
میں تھا معلوم، نامعلوم میں گم ہو چکا ہوں

نہیں معلوم زریون اب تمہاری عمر کیا ہوگی
مرے خود سے گذرنے کے زمانے سے سوا ہوگی
مرے قامت سے اب قامت تمہارا فزوں ہوگا
مرا ’’فردا‘‘ مرے دیروز سے بھی خوش نموں ہوگا
حسابِ ماہ و سال اب تک کبھی رکھا نہیں میں نے
کسی بھی فصل کا اب تک مزہ چکھا نہیں میں نے
میں اپنے آپ میں کب رہ سکا، کب رہ سکا آخر
کبھی اِک پل کو بھی اپنے لیے سوچا نہیں میں نے
حسابِ ماہ و سال و روز و شب، وہ سوختہ بُودش
مسلسل جاں کنی کے حال میں رکھتا بھی تو کیسے
جسے یہ بھی نہ ہو معلوم وہ ہے بھی تو کیوں کر ہے
کوئی حالت دلِ پامال میں رکھتا بھی تو کیسے
کوئی نسبت بھی اب تو ذات سے باہر نہیں میری
کوئی بستر نہیں میرا، کوئی چادر نہیں میری

تمہاری تربیت میں میرا حصہ کم رہا، کم تر
زباں میری تمہارے واسطے شاید کہ مشکل ہو
زباں، اپنی زباں میں تم کو آخر کب سکھا پایا
عذابِ صدشماتت آخرش مجھ پر ہی نازل ہو
زباں کا کام یوں بھی بات سمجھانا نہیں ہوتا
سمجھ میں کوئی بھی مطلب کبھی آنا نہیں ہوتا
کبھی خود تک بھی مطلب کوئی پہچانا نہیں ہوتا
گمانوں کے گماں کی دم بہ دم آشوب کاری ہے
بھلا کیا اعتباری اور کیا نااعتباری ہے

گماں یہ ہے، بھلا میں جُز گماں کیا تھا گمانوں میں
سخن ہی کیا فسانوں کا، دھرا کیا ہے فسانوں میں
مرا کیا تذکرہ اور واقعی کیا تذکرہ میرا
میں اِک افسوس ہوں، افسوس تھا گذرے زمانوں میں

ہے شاید دل مرا بے زخم اور لب پر نیں چھالے
مرے سینے میں کب سوزندہ تر داغوں کے ہیں تھالے
مگر دوزخ پگھل جائے جو میرے سانس اپنالے
تم اپنی مام کے بے حد مرادی مَنتوں والے
مرے کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، بالے
مگر پہلے کبھی تم سے مرا کچھ سلسلہ تو تھا
گماں میں میرے شاید اک کوئی غنچہ کِھلا تو تھا
وہ میری جاودانہ بے دُوئی کا اک صلہ تو تھا
سو، اس کو ایک ’’اَبوّ‘‘ نام کا گھوڑا ملا تو تھا

نہیں معلوم مجھ کو عام شہری کیسے ہوتے ہیں
وہ کیسے اپنا بنجر نام بنجر پن میں بوتے ہیں
میں اُر سے آج تک اِک عام شہری ہو نہیں پایا
اسی باعث میں ہوں انبوہ کی لذت سے بے مایہ
مگر تم اک دو پایہ راست قامت ہو کے دکھلانا
سنو رائے دہندہ بِن ہوئے تم باز مت آنا
فقط زریون ہو تم، یعنی اپنا سابقہ چھوڑو
فقط زریون ہو تم، یعنی اپنا لاحقہ چھوڑو
مگر میں کون جو چاہوں تمہارے باب میں کچھ بھی
بھلا کیوں ہو مرے احساس کے اسباب میں کچھ بھی
تمہارا باپ، یعنی میں، عبث مَیں، اک عبث تَر میں؟
میں مَیں یعنی جانے کون؟ اچھا میں، سراسر میں!
میں اک کاسد ہوں، کاذب ہوں، میں کیّاد و کمینہ ہوں
میں کاسہ باز و کینہ ساز ہو کاسہ تن ہوں، کتّا ہوں
میں اک ننگینِ بُودش ہوں، پہ تم تو سرّ منعَم ہو
تمہارا باپ روح القدس تھا؛ تم ابنِ مریم ہو

بہ حالِ ناشِتا صد زخم ہا و خون ہا خوردم
بہ ہر دم شوکراں آمیختہ معجون ہا خوردم
تمہیں اس بات سے مطلب ہی کیا اور آخرش کیوں ہو
کسی سے بھی نہیں مجھ کو گِلہ اور آخرش کیوں ہو
جو ہے اک ننگِ ہستی اس کو تم کیا جان بھی لو گے
اگر تم دیکھ لو مجھ کو تو کیا پہچان بھی لو گے
تمہیں مجھ سے جو نفرت ہے، وہی تو میری راحت ہے
مری جو بھی اذیّت ہے، وہی تو میری لذت ہے
کہ آخر اس جہاں کا اک نظامِ کار ہے آخر
جزا کا اور سزا کا کوئی تو ہنجار ہے آخر
میں خود میں جھینکتا ہوں اور سینے میں بھڑکتا ہوں
مرے اندر جو ہے اک شخص، میں اس میں پھڑکتا ہوں
ہے میری زندگی اب روز و شب یک مجلسِ غم ہا
عزاہا، مرثیہ ہا، گریہ ہا، آشوبِ ماتم ہا

میں اپنے شہرِ علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہِن
مرے تلمیذِ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سن
مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا
وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پرُ حالی سکھاتا تھا
وہ ہیٔت داں، وہ عالم، نافِ شب میں چھت پہ جاتا تھا
رَصَد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا، نبھاتا تھا
اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرصِ دولت تھی
مری ماں کی تمناؤں کا قاتل تھا وہ قلاّمہ
مری ماں، میری محبوبہ، قیامت کی حسینہ تھی
ستم یہ ہے، یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہّامہ
تھا بے حد اشتعال انگیز بد قسمت وہ علامہ
خَلَف اُس کے خزف اور بے نہایت نا خَلَف نکلے
ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شَرَف نکلے
میں اس عالم ترینِ دہر کی فکرت کا منکر تھا
میں سو فسطائی تھا، جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا
پر اب میری یہ شہرت ہے کہ میں بس اک شرابی ہوں
میں اپنے دُودمانِ علم کی خانہ بربادی ہوں




0 comments: